غزل - ۲۴
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا |
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا |
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسد جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا * * * * قطرہٴ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا خطِ جامِ مے سراسر، رشتہٴ گوہر ہوا اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا * * * * |
Comments
It really is a nonsense! It
It really is a nonsense! It looks such absurdly like the thing that large size clothing is for graceful persons!