غزل - ۳
کہتے ہو نہ دیں گے ہم، دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مُدّعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا
دوستدارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم!
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری، بیخودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا؟
* * * * * *