غزل - ۲۴
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب!
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
ہنوز محرمیٴ حسن کو ترستا ہوں
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا
* * * *
قطرہٴ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خطِ جامِ مے سراسر، رشتہٴ گوہر ہوا
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
* * * *