ملیر کی گلیاں
ملیر کی یادوں کے ساتھ ہرے بھرے پیڑ وابستہ ہیں: امرود، آم، انار، نیم، گلاب، چمبیلی، موتیا۔
ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر میں ایک کمرہ اور ایک بڑا سا آنگن تھا۔ نانا، نانی کے ساتھ خالہ رہتی تھیں اور ماموں، ممانی اور ان کے تین بیٹے ایک ساتھ۔ دونوں کوارٹروں کی درمیانی دیوار نہ تھی لہذا یہ ایک بڑا سا گھر نظر آتا۔ نانی کے آنگن میں امرود کے تین چار پیڑ قطار سے لگے ہوئے تھے اور ایک انار کا درخت تھا۔ ماموں کی طرف ایک بڑا سا نیم کا پیڑ اور موتیا، چمبیلی، اور گلاب کی جھاڑیاں تھیں۔
چھٹیوں کی دوپہر ہم بچے درختوں پر چڑھتے، امرود توڑ توڑ کر کھاتے، آنکھ مچولی کھیلتے۔ شام کو سڑک کے اس پار ملیر ریلوے اسٹیشن کی سیر کو جاتے۔ اور اسٹیشن کے باہر ریل کی پٹریوں کے نیچے بنی پلیاؤں کے اندر بیٹھ کر اوپر سے جاتی ہوئی ٹرین کی آواز سنتے۔ رات کو نانی چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر لگاتیں اور ہمیں کہانیاں سناتیں۔ اور ہم تاروں بھرے آسمان کو تکتے تکتے سوجاتے۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔
تب ملیر کے ہر کوارٹر میں آنگن اور پیڑ ہوتے تھے اور گلیاں صاف ستھری۔ ہواؤں میں امرود کی مہک اور چمبیلی کی خوشبو بسی ہوتی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے پیڑوں کو کاٹ کر اضافی کمرے بنانے شروع کیے۔ کچے آنگن پکے ہوتے گئے۔ پیڑوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ گلاب اور چمبیلی کی جھاڑیاں بھی بتدریج کم ہوتی گئیں۔ کمروں کے باہر ٹین کے شیڈ ڈال کر برآمدے بنائے گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کا ذکر ہے۔
آبادی بڑھتی رہی۔ ۸۰ مربع گز پر بنے ہوا دار اور روشن گھر گھٹے ہوئے چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے تاریک، ایک منزلہ، دو منزلہ بدصورت مکانوں میں تبدیل ہو گئے۔ گلیوں کی چوڑائی کم ہو گئی کیونکہ لوگوں نے گھروں کے باہر ناجائز احاطے تعمیر کر لیے اور سیاہ آہنی گیٹ لگا لیے تھے۔ پیڑوں کی شاخوں کی جگہ اب ٹی وی اینٹینے، سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈوں اور ٹیلی فون کے بے ہنگم تاروں نے لے لی تھی۔ یہ ملیر کالونی تھی ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔
اور آج، اپریل ۱۹۹۵ کی ایک صبح، میں ملیر کی ایک پکی سڑک پر چلتے ہوئے اس حصے پر قدم رکھتی ہوں جو کلاشنکوف کی گولیوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے چھلنی اور ایک انسان کے خون سے سیاہ ہے۔۔۔ وہ انسان جسے آج سے پندرہ دن قبل سڑک کے اسی حصے پر سفاکی سے قتل کیا گیا۔ میں ان تبدیلیوں کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں میں اس زمین، اور اس زمین کے باسیوں کی روح میں در آئی ہیں۔ کتنی گمھبیر تبدیلیاں ہیں یہ۔ اور کتنا مسخ کردیا ہے انھو ں نے ، ملیر کو، جو کبھی ایک سرسبز اور پر امن وادی تھی، اور اس کے مکینوں کی روح کو، وہ سادہ لوح ، مہمان نواز مکیں جو پیڑوں، پھلوں، پھولوں، سبک ہواؤں اور ز ندگی سے محبت کرتے تھے۔
اس منظر کا تصور میرے ذہن کے دریچے میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے: دوپہر کا وقت ہے۔ زندگی کا کاروبار جاری ہے۔ سڑک کے کنارے بنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں گاہک کھڑے اشیاء صرف کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور عورتیں گھروں کی دہلیز پر کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کار سڑک پر رکتی ہے۔ سامنے حلوائی اور ڈرائی کلینر کی دکانیں ہیں۔ گاڑی میں سے تین مسلح آدمی اترتے ہیں، ڈکی کھولتے ہیں۔ ایک ادھ موئے، نیم جان، کمر تک ننگے آدمی کو نکالتے ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں، اور اسے تپتی ہوئی تارکول کی سڑک پر پھینکتے ہیں، اس پر کلاشنکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں، پھر اس کے چہرے پر ٹھوکر مار کر یقین کرتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا خون آلود ساکت چہرہ ایک طرف ڈھلک جاتا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھتے ہیں اور گاڑی آہستہ خرامی سے سڑک پر چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
لاش تین گھنٹے خون کے تالاب میں ڈوبی پڑی رہی۔ وہ ایک تنومند، گھبرو جوان تھا۔ کوئی لاش کے قریب نہ پھٹکا۔ سڑک پر زندگی کا کاروبار جاری رہا۔ البتہ ایک وحشت ناک خاموشی پھیل چکی تھی۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام جلدی جلدی نمٹا رہے تھے اور لاش کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آخرکار تین گھنٹے بعد ایدھی کی ایمبولیس پہنچی اور لاش اٹھا کر لے کر گئی۔ "ہفتہ بھر وہ لاش مردہ خانے میں پڑی رہی۔ پھر کہیں جا کے اس کی شناخت ہوئی۔ پتہ چلا وہ فوجی تھا،" سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے والی بزرگ خاتون موضوع سخن سے ہٹ چلی ھیں۔ میں ملیر کے اس گھر میں بیٹھی ان کے نوجوان بھتیجے کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہوں جو چند ماہ پہلے اس گھر کے اندر قتل ہوا۔
"خدا رحم کرے ہم سب پر۔ ہمیں کیا ہوگیا؟ کیا ہمارے اندر شیطان حلول کر گیا ہے؟" مقتول نوجوان کی پھوپھی، تسبیح ہلاتی ہوئی، تیز تیز بولے جا رہی ھیں۔ مقتول کی ماں کسی سوئم میں گئی ہوئی ہیں اور میں گھر کی عورتوں سے بات کر رہی ہوں۔
"لوگوں اتنے بےدرد، اتنے بےرحم ہو گئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں کہ بھیڑ بکریوں کو بھی ایسے ذبح نہیں کیا جاتا۔۔۔" مقتول کی چچی تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں۔ "ساتواں روزہ تھا۔ میں ظہر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ریحان دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ریحان کی ماں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ دودھ والا دودھ دے کر پلٹا تھا اور میں دودھ کی تھیلی ہاتھ میں لیے باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اتنے میں ایک سفید کار گھر کے گیٹ پر رکی، تین آدمی بڑی بڑی بندوقیں لیے دراتے ہوئے اندر آگئے اور چلا کر پوچھا ُریحان ہے؟ُ انھوں نے جواب کا انتظار بھی نہ کیا اور سیدھے اندر چلے گئے۔ ہمارے گھر کے ساتھ والا مکان ریحان کا ہے اور اندر سے ایک چھوٹا سا راستہ جو دونوں گھروں کو ملاتا ہے۔ بس وہ سیدھے اس راستے سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے۔ ریحان ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا"، چچی ایک دم سے خاموشی ہو گئیں۔ پھوپھی، ماں اور چچی کی چیخوں اور بچوں کی خوف زدہ ہو کر رونے کی آوازوں کے درمیان قاتلوں نے کمرے میں داخل ہو کر گولیوں کی باڑھ ماری۔ "ریحان کے ہاتھ نماز کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ سینے پہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ کوئی آواز نکالے بغیر گر گیا۔ بائیس گولیاں نکلی تھیں جسم سے"، وہ مجھے بتا رہی ہیں۔
"یہ سب کچھ منٹوں میں ہو گیا اور قاتل جس راستے سے آئے اسی راستے واپس ہو گئے۔ دو کے منہ پر ڈھاٹے بندھے ہوئے تھے اور ایک جو درمیانی راستہ پر جم کر کھڑا ہوا نقاب نہیں پہنے تھا"، چچی نے بتایا۔ شاید آپ اسے پہچان سکیں؟ میں سوالیہ
"میں؟ نہیں۔ نہیں۔" وہ گبھرا سی گئیں "مجھے اس کی شکل بالکل یاد نہیں۔ ہوش وحواس میں کہاں تھی تب۔"
"اگر پہچان بھی لے تو کیا ریحان ہمیں واپس مل جائے گا؟ جانے والا تو گیا،" پھوپھی جلدی سے بولیں۔
پھوپھی مجھے وہ کمرہ دکھانے لے جاتی ہیں جہاں وہ قتل ہوا۔ یہ ایک بہت تنگ سا کمرہ ہے۔ جس میں صرف ایک صوفہ سیٹ ہے جو تین دیواروں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ صوفے کی وسطی میز کو چوتھی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا گیا ہے اور کمرے کے وسط میں دری بچھی ہوئی ہے جس پر جائے نماز بچھائی جا سکتی ہے۔ چاروں دیواریں، اور صوفہ سیٹ گولیوں سے چھلنی ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھی ہوں۔ ریحان کی چچی ہمارے لیے چائے لے کر آتی ہیں۔
ستائیس سالہ ریحان سات بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔ ریحان کے باپ تیرہ سال پہلے طویل بیماری کے بعد فوت ہوئے۔ ریحان اس وقت آٹھویں میں تھا۔ اس نے پڑھائی جاری رکھی اور لیاقت مارکیٹ میں اپنے ماموں کی دکان میں بطور سیلز مین کام شروع کیا۔ بی۔کام کرنے کے بعد اس نے ڈوپٹوں کی دکان لگائی۔ دو چھوٹے بھائی اس کی مدد سے جمعہ بازار میں اسٹال لگاتے۔ پورے گھر کی ذمہ دار اس پر تھی۔
"ریحان کے قتل کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ بھائیوں نے تین ماہ سے جمعہ بازار میں اسٹال نہیں لگایا ہے۔ ایک چھوٹے بھائی کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ پنڈی بھیج دیا تھا رشتے کے چچا کے پاس۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ خلا میں تکتا رہتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کھڑے سینے پر باندھ لیتا ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو اور بڑبڑانے لگتا ہے: ُمیرا بھائی ستائیس سال کا تھا۔ اس کی شادی ہونے والی تھیُ۔ اور پتہ نہیں کیا کیا،" پھوپھی کہہ رہی ہیں۔
کیا ریحان کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھا؟
پھوپھی اور چچی خاموش ہو جاتی ہیں۔
"ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ آپ اس کی ماں سے بات کریں آ کر۔ وہ بتائیں گی سب"۔
ریحان کا تعلق MQM سے تھا۔ محلے کے لوگوں سے معلوم ہوا۔ تین سال پہلے ریحان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اٹھارہ دن بعد واپس آیا۔ "ان دنوں اس نے ایک جگہ نوکری شروع کی تھی اغوا کے بعد اس نے ہمیں کبھی کچھ نہ بتایا۔ لیکن اس کے بعد سے مہینوں وہ دہشت زدہ رہا۔ ہفتوں کھانا نہ کھا سکا۔ نوالہ ہی نہیں نگلا جاتا تھا۔ ایسا خوف، ایسی دہشت تھی کہ ہم نے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ ماں اور پھوپھی کے بیچ میں لیٹ کر سوتا۔ راتوں کو گھبرا کر اٹھ بیٹھتا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیسا کڑا وقت تھا۔ لیکن ایک تسلی تھی، کہ زندہ سلامت تو ہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ یاد ہی رہ گئی ہے۔
ملیر : اے۔ون ایریا
دیواریں میں لکھے نعروں سے اندازہ ہوتا ہے یہاں MQM حقیقی کا راج ہے۔ ۱۹۷۰ کے عشرے تک یہ علاقہ ایک کھلے وسیع میدان پر مشتمل تھا جس کے کنارے بیرکوں کی صرف ایک قطار تھی۔ یہ بیرکیں شیڈ کے نام سے مشہور تھیں۔ شیڈ کے آس پاس کچھ جھگیاں تھیں اور بھینسوں کے باڑے۔ یہاں پنجابی، سندھی اور مہاجروں کی ملی جلی آبادی تھی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی کے اوائل میں یہ علاقہ دلالوں کے ہاتھ میں آیا جو علاقے میں جلد ہونے والی قانونی پلاٹنگ کے منتظر تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کچے گھروں کی قطاریں کھڑی ہو گئیں۔ ۸۰ کے وسط میں ساٹھ مربع گز کے پلاٹوں کی حد بندی شروع ہوئی۔ شیڈوں کو منہدم کیا گیا اور پرانے مکینوں کو نئے پلاٹ الاٹ ہوئے۔ لیکن ان گنت پلاٹ دلالوں کے ذریعے کراچی کے دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کیے گئے اور یوں اے ون ایریا ۱۹۸۰ کی دہائی کے تین خطرناک عناصر ہتھیار، ہیروئن اور MQM کی پناہگاہ بن گیا۔ ۱۹۹۲ کے وسط میں ہونے والے واقعات۔۔۔آپریشن کلین اپ اور حقیقی کی پیدائش۔۔۔۔ نے بارود کا کام کیا۔
"ہم ملیر میں ۳۵ سال سے ہیں لیکن ایسے حالات نہیں دیکھے۔ یہ MQM کی دھڑےبندی تھی جو ہم سب کی بربادی کا باعث بنی۔ لالوکھیت، کورنگی اور دوسرے علاقوں سے MQM کے لڑکے چھپنے کے لیے یہاں اٹھ آئے۔ چھپنے چھپانے والوں نے ہمارے علاقے کا ستیاناس کیا۔ اب یہ لڑکے بندوقیں لٹکائیں گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ڈاکے ڈالتے ہیں، بھتہ لیتے ہیں۔"
"سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی کوئی عزت نہیں رہی۔ ہماری گلی میں ایک بوڑھا، سفید کچھڑی بال، سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اسے ان لڑکوں سے التجا کرنی پڑتی ہے۔ ہاتھ باندھ کے وہ ان اٹھارہ اٹھارہ برس کے لڑکوں سے کہتا ہے، ُسر جی، پھیری لگا لوںُ۔ ایک ہفتہ ہوا، ان لڑکوں نے پنساری کی دکان لوٹ لی۔ گلی کے بچوں میں لوٹی ہوئی ٹوفیاں اور دو دو روپے تقسیم کیے اور کہا، ُبولو، حقیقی زندہ بادُ۔ ہمارے دودھ والے نے میرے میاں کو بتایا کہ لڑکے اس سے دس ہزار مانگ رہے ہیں کہ اسلحہ خریدنا ہے۔ غریب دودھ والا دس ہزار کہاں سے لاتا۔ بیچارہ، یہ علاقہ چھوڑ گیا۔ خدا جانے اب کہاں دودھ بیچاتا ہوگا۔
"تو یہ حال ہے ہمارے علاقے کا۔ یہ غنڈے بدمعاش جن کے منہ سے ابھی دودھ کی بو آتی ہے، نہ صرف یہ کہ بھتہ مانگتے ہیں بلکہ تمہارے منہ پر کہتے ہیں کہ اسلحہ ختم ہو گیا ہے، بندوقیں لانی ہے، گولیاں خریدنی ہیں،" سکینہ، عمر پچپن کے لگ بھگ، مادری زبان پنجابی، سانس لیے بغیر بول رہی ہیں۔ تین سال کے عرصے میں سکینہ نے اس علاقہ کا جو اخلاقی اور معاشرتی زوال دیکھا ہے، اس نے ان کا سر چکرا دیا ہے۔
میں ان کے گھر میں اپنی خالہ کے ساتھ ان کے بیٹے کا حال پوچھنے آئی ہوں جو گلی میں چلنی والی گولیوں سے شدید زخمی ہوا تھا۔ میری خالہ گورنمنٹ کے ایک ادارے سے وابستہ ہیں اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اس علاقے میں رہتی ہیں۔
"اس دن بہت فائرنگ ہو رہی تھی۔ احمد نے ہم سب کو اندرونی کمرے میں جانے کو کہا اور برآمدے میں آیا کہ گیٹ بند کر لے۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے گیٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانک لیا۔ ایک گولی اس کی دائیں آنکھ کے اوپر لگی اور وہ وہیں گر پڑا۔ باہر لڑکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، ُاحمد بھائی کے گولی لگ گئی، فائرنگ بند کرو، فائرنگ بند کروُ۔ فائرنگ بند ہوگئی۔ چند لڑکے ہماری مدد کو آئے اور احمد کو جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ دوسرے دن دو تین لڑکے میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ُخالہ معاف کرنا۔ لیکن یہ ہماری گولی نہیں تھی جو احمد بھائی کو لگیُ۔ ذرا دیکھو، ان کی ہمت۔ اور ہماری بےبسی! کیا کرسکتے تھے ہم۔ اگر وہ لڑکا بھی، جس کی بندوق سے چلی ہوئی گولی احمد کو لگی، ہمارے پاس آجاتا تو ہم کیا بگاڑ سکتے تھے اس کا؟ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ کوئی ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اور اٹھائے بھی کیسے؟ کوئی دو لفظ بول دے تو جان سلامت نہیں،" سکینہ کہ رہی ہیں، ؛ہر حال میں جیئے جانے کی ہوس نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔۔۔" وہ چپ ہوجاتی ہیں۔
"جس دن میرے بھائی کو گولی لگی جی چاہتا تھا پورے اے ون ایریا کو جلا کر خاکستر کر دوں،" احمد کی چھوٹی بہن کی آواز غصے سے کپکپاتی ہے۔ وہ بی۔اے پاس ہے اور ایک دواؤں کی کمپنی میں کام کرتی ہے۔ اس کی دو چھوٹی بہنیں سامنے دری پر بیٹھی مٹر کی پھلیاں چھیل رہی ہیں۔
یہ چھ بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ احمد سب سے بڑا ہے۔ دو بہنیں نوکری کرتی ہیں۔ باپ کبھی فوج میں سپاہی تھے اب معمولی پینشن ملتی ہے۔ احمد ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ پھر اسے فیکٹری سے نکال دیا گیا۔ فیکٹری نقصان میں جا رہی تھی لہذا تیس آدمیوں کی چھٹی ہوئی۔ "ایک دفعہ احمد نے باہر جانے کی کوشش کی۔ آٹھ ہزار مانگ تانگ کر کسی ایجنٹ کو دیئے۔ لیکن یونان والوں نے پکڑ کر واپس بھیج دیا۔" احمد دو سال سے بےروزگار ہے۔
میں خالہ کے ساتھ ملیر کی گلیوں سے گزر رہی ہوں۔ "اس علاقے میں بہت اسلحہ ہے۔ چند ایک خالی گھر ہیں جہاں لڑکوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ گھر اسلحہ ڈپو بنے ہوئے ہیں۔ کبھی ان گھروں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور قطار سے لگی ہوئی بندوقیں، کلاشنکوفیں اور گولیوں کی پیٹیاں ہر آنے جانے والے کو صاف نظر آتی ہیں۔ بندوقیں لٹکائیں یہ لڑکے گولیوں کی پیٹیاں ادھر سے ادھر پہنچاتے رہتے ہیں۔ آج کل البتہ یہ لڑکے روپوش ہیں۔ جب سے دو امریکی مارے گئے ہیں، تب سے زرا سکون ہے۔
"یہاں دو بدنام ترین لڑکے ہیں حقیقی کے۔ ایک کو تو پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ محلے والوں نے سکون کا سانس لیا کہ چلو ایک تو کم ہوا۔ لیکن ایک ہفتے بعد وہ لڑکا واپس گلیوں میں گھوم رہا تھا اور فخریہ انداز میں لوگوں کو بتا رہا تھا، "دو لاکھ روپے دیئے ہیں"۔ ان لڑکوں نے کمسن بچوں کو تنخواہ پر رکھا ہوا ہے جو پولیس یا دوسرے گروپ کے لڑکوں کے آنے کی اطلاع انھیں وقت پر پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ بچے بڑے ہوکر کیا کرسکیں گے؟ ہمارے محلے میں الطاف گروپ سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن حقیقی والے ان سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں"۔
ہم ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں جس کا سربراہ، ایک ادھیڑ عمر کا آدمی، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کا باپ، دو ماہ پہلے فائرنگ میں ہلاک ہوا ہے۔ بیوہ کسی کام سے باہر گئی ہوئی ھیں۔ میں لڑکیوں سے بات چیت کر رہی ہوں۔ سب سے بڑی لڑکی ۲۰ سال کی ہے۔ "اس دن ابا سہ پہر میں گلی کی نکڑ پر مکینک کی دکان سے اپنی اسکوٹر ٹھیک کروا رہے تھے کہ کچھ مسلحہ افراد گاڑی میں آئے اور گولیاں برسا کر چلے گئے۔ مکنیک تو اسی وقت ختم ہو گیا۔ ابا زخمی حالت میں سڑک پر پڑے رہے۔ کوئی اٹھانے نہیں آیا۔ اتفاق سے میرے بھائی نے اس دن فیکٹری سے چھٹی کی تھی۔ جب گولیاں چلنی بند ہوئی تو وہ باہر نکلا۔ دیکھا ابا سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ بہت خون بہہ گیا تھا۔ اسپتال جاتے وقت راستے میں ختم ہو گئے۔
"میرے ابا اور بھائیوں کا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رہا لیکن ابا کی موت کے بعد MQM اور حقیقی دونوں تنظیموں نے دعوہ کیا کہ ابا ان کے پارٹی کے ہمدرد تھے۔ یہ جھوٹ تھا۔ بعد میں جب اخبار سے لوگ آئے تو بھائی نے کسی سے بات نہ کی۔ کیا فائدہ ان سب باتوں کا۔ الٹا نقصان ہی پہنچ سکتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا میں دستاویزی فلم بنا رہا ہوں۔ دنیا بھر میں دکھانے کے لیے کہ کتنا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن میرے بھائیوں نے منع کر دیا"۔
ہم چار پائی پر بیٹھے ہیں اور بچے ہمارے گرد گھیرا ڈالے کھڑے خاموشی سے ہماری باتیں سن رہے ہیں۔
"ابا موٹر سائیکل میں دکانوں کو مال سپلائی کیا کرتے تھے،" وہ مجھے ب تا رہی ہے۔ اب گیارہ افراد پر مشتمل اس خاندان میں دو کمانے والے ہیں۔
"جب بھی فائرنگ ہوتی تھی ابا کہتے دروازہ بند کر لو، باہر نہ نکلو۔ بہت ڈرتے تھے۔ ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔ دو دن پہلے ہی کہا تھا کہ کھڑکیوں، دروازوں میں لوہے کی جالی لگوا لیں گے۔ بہت وارداتیں ہو رہی ہیں۔ کسی کو کیا معلوم تھا خود ہی واردات کا شکار ہو جائیں گے"۔
کیا حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ وغیرہ ملا؟
"ہمیں صرف FIR کی کاپی ملی جو پولیس نے خود درج کی تھی۔ اور ابا کی موت کا سرٹیفکٹ، جو اسپتال والوں نے دیا۔"
"لیاقت آباد میں بہت برا حال ہے۔ جہاں میں رہتی ہوں۔ لیکن یہاں کے حالات تو بہت ہی خراب ہیں،" ایک بوڑھی خاتون جو گھر میں مہمان آئی ھیں بتانے لگیں۔ "دو مہینے پہلے میں یہاں آئی تھی۔ بس سے اتر کر گلی میں داخل ہوئی۔ میری نظریں اتنی کمزور ہیں کہ میں صرف زمین کی جانب نظریں جمائے رکھتی ہوں کہ کسی پتھر سے ٹھوکر نہ کھاؤں۔ ادھر ادھر تو دیکھتی نہیں ۔۔" انھوں نے موٹے موٹے شیشوں والا چشمہ درست کیا، اور بولیں، "میں جب گلی میں داخل ہوئی اور نظر اٹھائی تو دیکھا تین لڑکے یہ لمبی لمبی بندوقیں کندھوں پر لٹکائے کھڑے ہیں۔ میں وہیں بت بن گئی۔ مجھ سے اگلا قدم اٹھائے نہ اٹھے۔ خوف تھا کہ ہلی اور ان لڑکوں نے گولی چلائی۔ ایک لڑکے نے میرے سفید گال اور جھکی ہوئی کمر کو دیکھتے ہوئے کہا ُاماں ڈر گئیں؟ُ میں بولی ُبیٹا، ڈروں کیسے نہیں؟ بندوق جو اٹھائے ہوئے ہوُ۔ بولا ُاماں، تم تو خود مری ہوئی ہو۔ تمہیں کیا ماریں!ُ
ہم تنگ گلیوں سے گزر کر خالہ کے گھر واپس لوٹتے ہیں۔ "یہاں منشیات کا مسئلہ بھی ہے،" خالہ کہتی ہیں۔ ایک مکان کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سرخ آنکھیں، گالوں کی ہڈیاں نکلی ہوئی، خالی الزہن، خلا میں گھورتا ہوا۔
"کچھ لوگ کھلم کھلا بیچتے ہیں ہیروئن۔ ایک پکڑا بھی گیا تھا۔ لیکن چھوٹ کے آگیا۔ اس کا بھائی وکیل ہے۔"
میری خالہ کو حالات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ ان کے بچے چھوٹے ہیں اور اسکول کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بڑی بیٹی کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ دو لڑکوں نے تکنیکی ڈپلومے لیے ہیں اور اب ٹیکسٹائل ڈیزائن کا کام شروع کیا ہے۔ خالہ کی زندگی جدوجہد کی داستان ہے۔ خالو کی مسلسل بیماری کی وجہ سے گھر بار کا پورا بوجھ ہمیشہ خالہ پر ہی رہا۔
"اور اب میں سوچنے لگی تھی کہ چلو بچوں کی تعلیم ختم ہونے کو آ رہی ہے اور وہ برسر روز گار ہونے لگے ہیں۔ سکون سے بقیہ دن گزر سکیں گے۔ لیکن اب یہ گھر ہے، اور ہم،" خالہ ہرے بھرے گملوں پر نظر ڈالتی ہیں۔ برآمدے میں سیمنٹ کی چادر ڈلوا کر لوہے کی جالی لگوائی ہے۔ سفید پینٹ تازہ ہے۔ "اور یہ محلہ۔۔۔ جو تیزی سے تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میں دلدل پہ چل رہی ہوں۔ بس ایک تسلی ہے، اگر اسی تسلی کہہ لو،کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ ہم سب ہی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ لیکن شاید آگے دلدل ختم ہو جائے اور زمین مضبوط، کون جانے۔۔۔"، خالہ کے چہرے پہ ایک موہوم سی مسکراہٹ ہے۔
**
ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر میں ایک کمرہ اور ایک بڑا سا آنگن تھا۔ نانا، نانی کے ساتھ خالہ رہتی تھیں اور ماموں، ممانی اور ان کے تین بیٹے ایک ساتھ۔ دونوں کوارٹروں کی درمیانی دیوار نہ تھی لہذا یہ ایک بڑا سا گھر نظر آتا۔ نانی کے آنگن میں امرود کے تین چار پیڑ قطار سے لگے ہوئے تھے اور ایک انار کا درخت تھا۔ ماموں کی طرف ایک بڑا سا نیم کا پیڑ اور موتیا، چمبیلی، اور گلاب کی جھاڑیاں تھیں۔
چھٹیوں کی دوپہر ہم بچے درختوں پر چڑھتے، امرود توڑ توڑ کر کھاتے، آنکھ مچولی کھیلتے۔ شام کو سڑک کے اس پار ملیر ریلوے اسٹیشن کی سیر کو جاتے۔ اور اسٹیشن کے باہر ریل کی پٹریوں کے نیچے بنی پلیاؤں کے اندر بیٹھ کر اوپر سے جاتی ہوئی ٹرین کی آواز سنتے۔ رات کو نانی چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر لگاتیں اور ہمیں کہانیاں سناتیں۔ اور ہم تاروں بھرے آسمان کو تکتے تکتے سوجاتے۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔
تب ملیر کے ہر کوارٹر میں آنگن اور پیڑ ہوتے تھے اور گلیاں صاف ستھری۔ ہواؤں میں امرود کی مہک اور چمبیلی کی خوشبو بسی ہوتی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے پیڑوں کو کاٹ کر اضافی کمرے بنانے شروع کیے۔ کچے آنگن پکے ہوتے گئے۔ پیڑوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ گلاب اور چمبیلی کی جھاڑیاں بھی بتدریج کم ہوتی گئیں۔ کمروں کے باہر ٹین کے شیڈ ڈال کر برآمدے بنائے گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کا ذکر ہے۔
آبادی بڑھتی رہی۔ ۸۰ مربع گز پر بنے ہوا دار اور روشن گھر گھٹے ہوئے چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے تاریک، ایک منزلہ، دو منزلہ بدصورت مکانوں میں تبدیل ہو گئے۔ گلیوں کی چوڑائی کم ہو گئی کیونکہ لوگوں نے گھروں کے باہر ناجائز احاطے تعمیر کر لیے اور سیاہ آہنی گیٹ لگا لیے تھے۔ پیڑوں کی شاخوں کی جگہ اب ٹی وی اینٹینے، سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈوں اور ٹیلی فون کے بے ہنگم تاروں نے لے لی تھی۔ یہ ملیر کالونی تھی ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔
اور آج، اپریل ۱۹۹۵ کی ایک صبح، میں ملیر کی ایک پکی سڑک پر چلتے ہوئے اس حصے پر قدم رکھتی ہوں جو کلاشنکوف کی گولیوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے چھلنی اور ایک انسان کے خون سے سیاہ ہے۔۔۔ وہ انسان جسے آج سے پندرہ دن قبل سڑک کے اسی حصے پر سفاکی سے قتل کیا گیا۔ میں ان تبدیلیوں کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں میں اس زمین، اور اس زمین کے باسیوں کی روح میں در آئی ہیں۔ کتنی گمھبیر تبدیلیاں ہیں یہ۔ اور کتنا مسخ کردیا ہے انھو ں نے ، ملیر کو، جو کبھی ایک سرسبز اور پر امن وادی تھی، اور اس کے مکینوں کی روح کو، وہ سادہ لوح ، مہمان نواز مکیں جو پیڑوں، پھلوں، پھولوں، سبک ہواؤں اور ز ندگی سے محبت کرتے تھے۔
اس منظر کا تصور میرے ذہن کے دریچے میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے: دوپہر کا وقت ہے۔ زندگی کا کاروبار جاری ہے۔ سڑک کے کنارے بنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں گاہک کھڑے اشیاء صرف کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور عورتیں گھروں کی دہلیز پر کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کار سڑک پر رکتی ہے۔ سامنے حلوائی اور ڈرائی کلینر کی دکانیں ہیں۔ گاڑی میں سے تین مسلح آدمی اترتے ہیں، ڈکی کھولتے ہیں۔ ایک ادھ موئے، نیم جان، کمر تک ننگے آدمی کو نکالتے ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں، اور اسے تپتی ہوئی تارکول کی سڑک پر پھینکتے ہیں، اس پر کلاشنکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں، پھر اس کے چہرے پر ٹھوکر مار کر یقین کرتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا خون آلود ساکت چہرہ ایک طرف ڈھلک جاتا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھتے ہیں اور گاڑی آہستہ خرامی سے سڑک پر چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
لاش تین گھنٹے خون کے تالاب میں ڈوبی پڑی رہی۔ وہ ایک تنومند، گھبرو جوان تھا۔ کوئی لاش کے قریب نہ پھٹکا۔ سڑک پر زندگی کا کاروبار جاری رہا۔ البتہ ایک وحشت ناک خاموشی پھیل چکی تھی۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام جلدی جلدی نمٹا رہے تھے اور لاش کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آخرکار تین گھنٹے بعد ایدھی کی ایمبولیس پہنچی اور لاش اٹھا کر لے کر گئی۔ "ہفتہ بھر وہ لاش مردہ خانے میں پڑی رہی۔ پھر کہیں جا کے اس کی شناخت ہوئی۔ پتہ چلا وہ فوجی تھا،" سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے والی بزرگ خاتون موضوع سخن سے ہٹ چلی ھیں۔ میں ملیر کے اس گھر میں بیٹھی ان کے نوجوان بھتیجے کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہوں جو چند ماہ پہلے اس گھر کے اندر قتل ہوا۔
"خدا رحم کرے ہم سب پر۔ ہمیں کیا ہوگیا؟ کیا ہمارے اندر شیطان حلول کر گیا ہے؟" مقتول نوجوان کی پھوپھی، تسبیح ہلاتی ہوئی، تیز تیز بولے جا رہی ھیں۔ مقتول کی ماں کسی سوئم میں گئی ہوئی ہیں اور میں گھر کی عورتوں سے بات کر رہی ہوں۔
"لوگوں اتنے بےدرد، اتنے بےرحم ہو گئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں کہ بھیڑ بکریوں کو بھی ایسے ذبح نہیں کیا جاتا۔۔۔" مقتول کی چچی تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں۔ "ساتواں روزہ تھا۔ میں ظہر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ریحان دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ریحان کی ماں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ دودھ والا دودھ دے کر پلٹا تھا اور میں دودھ کی تھیلی ہاتھ میں لیے باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اتنے میں ایک سفید کار گھر کے گیٹ پر رکی، تین آدمی بڑی بڑی بندوقیں لیے دراتے ہوئے اندر آگئے اور چلا کر پوچھا ُریحان ہے؟ُ انھوں نے جواب کا انتظار بھی نہ کیا اور سیدھے اندر چلے گئے۔ ہمارے گھر کے ساتھ والا مکان ریحان کا ہے اور اندر سے ایک چھوٹا سا راستہ جو دونوں گھروں کو ملاتا ہے۔ بس وہ سیدھے اس راستے سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے۔ ریحان ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا"، چچی ایک دم سے خاموشی ہو گئیں۔ پھوپھی، ماں اور چچی کی چیخوں اور بچوں کی خوف زدہ ہو کر رونے کی آوازوں کے درمیان قاتلوں نے کمرے میں داخل ہو کر گولیوں کی باڑھ ماری۔ "ریحان کے ہاتھ نماز کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ سینے پہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ کوئی آواز نکالے بغیر گر گیا۔ بائیس گولیاں نکلی تھیں جسم سے"، وہ مجھے بتا رہی ہیں۔
"یہ سب کچھ منٹوں میں ہو گیا اور قاتل جس راستے سے آئے اسی راستے واپس ہو گئے۔ دو کے منہ پر ڈھاٹے بندھے ہوئے تھے اور ایک جو درمیانی راستہ پر جم کر کھڑا ہوا نقاب نہیں پہنے تھا"، چچی نے بتایا۔ شاید آپ اسے پہچان سکیں؟ میں سوالیہ
"میں؟ نہیں۔ نہیں۔" وہ گبھرا سی گئیں "مجھے اس کی شکل بالکل یاد نہیں۔ ہوش وحواس میں کہاں تھی تب۔"
"اگر پہچان بھی لے تو کیا ریحان ہمیں واپس مل جائے گا؟ جانے والا تو گیا،" پھوپھی جلدی سے بولیں۔
پھوپھی مجھے وہ کمرہ دکھانے لے جاتی ہیں جہاں وہ قتل ہوا۔ یہ ایک بہت تنگ سا کمرہ ہے۔ جس میں صرف ایک صوفہ سیٹ ہے جو تین دیواروں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ صوفے کی وسطی میز کو چوتھی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا گیا ہے اور کمرے کے وسط میں دری بچھی ہوئی ہے جس پر جائے نماز بچھائی جا سکتی ہے۔ چاروں دیواریں، اور صوفہ سیٹ گولیوں سے چھلنی ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھی ہوں۔ ریحان کی چچی ہمارے لیے چائے لے کر آتی ہیں۔
ستائیس سالہ ریحان سات بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔ ریحان کے باپ تیرہ سال پہلے طویل بیماری کے بعد فوت ہوئے۔ ریحان اس وقت آٹھویں میں تھا۔ اس نے پڑھائی جاری رکھی اور لیاقت مارکیٹ میں اپنے ماموں کی دکان میں بطور سیلز مین کام شروع کیا۔ بی۔کام کرنے کے بعد اس نے ڈوپٹوں کی دکان لگائی۔ دو چھوٹے بھائی اس کی مدد سے جمعہ بازار میں اسٹال لگاتے۔ پورے گھر کی ذمہ دار اس پر تھی۔
"ریحان کے قتل کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ بھائیوں نے تین ماہ سے جمعہ بازار میں اسٹال نہیں لگایا ہے۔ ایک چھوٹے بھائی کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ پنڈی بھیج دیا تھا رشتے کے چچا کے پاس۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ خلا میں تکتا رہتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کھڑے سینے پر باندھ لیتا ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو اور بڑبڑانے لگتا ہے: ُمیرا بھائی ستائیس سال کا تھا۔ اس کی شادی ہونے والی تھیُ۔ اور پتہ نہیں کیا کیا،" پھوپھی کہہ رہی ہیں۔
کیا ریحان کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھا؟
پھوپھی اور چچی خاموش ہو جاتی ہیں۔
"ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ آپ اس کی ماں سے بات کریں آ کر۔ وہ بتائیں گی سب"۔
ریحان کا تعلق MQM سے تھا۔ محلے کے لوگوں سے معلوم ہوا۔ تین سال پہلے ریحان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اٹھارہ دن بعد واپس آیا۔ "ان دنوں اس نے ایک جگہ نوکری شروع کی تھی اغوا کے بعد اس نے ہمیں کبھی کچھ نہ بتایا۔ لیکن اس کے بعد سے مہینوں وہ دہشت زدہ رہا۔ ہفتوں کھانا نہ کھا سکا۔ نوالہ ہی نہیں نگلا جاتا تھا۔ ایسا خوف، ایسی دہشت تھی کہ ہم نے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ ماں اور پھوپھی کے بیچ میں لیٹ کر سوتا۔ راتوں کو گھبرا کر اٹھ بیٹھتا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیسا کڑا وقت تھا۔ لیکن ایک تسلی تھی، کہ زندہ سلامت تو ہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ یاد ہی رہ گئی ہے۔
ملیر : اے۔ون ایریا
دیواریں میں لکھے نعروں سے اندازہ ہوتا ہے یہاں MQM حقیقی کا راج ہے۔ ۱۹۷۰ کے عشرے تک یہ علاقہ ایک کھلے وسیع میدان پر مشتمل تھا جس کے کنارے بیرکوں کی صرف ایک قطار تھی۔ یہ بیرکیں شیڈ کے نام سے مشہور تھیں۔ شیڈ کے آس پاس کچھ جھگیاں تھیں اور بھینسوں کے باڑے۔ یہاں پنجابی، سندھی اور مہاجروں کی ملی جلی آبادی تھی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی کے اوائل میں یہ علاقہ دلالوں کے ہاتھ میں آیا جو علاقے میں جلد ہونے والی قانونی پلاٹنگ کے منتظر تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کچے گھروں کی قطاریں کھڑی ہو گئیں۔ ۸۰ کے وسط میں ساٹھ مربع گز کے پلاٹوں کی حد بندی شروع ہوئی۔ شیڈوں کو منہدم کیا گیا اور پرانے مکینوں کو نئے پلاٹ الاٹ ہوئے۔ لیکن ان گنت پلاٹ دلالوں کے ذریعے کراچی کے دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کیے گئے اور یوں اے ون ایریا ۱۹۸۰ کی دہائی کے تین خطرناک عناصر ہتھیار، ہیروئن اور MQM کی پناہگاہ بن گیا۔ ۱۹۹۲ کے وسط میں ہونے والے واقعات۔۔۔آپریشن کلین اپ اور حقیقی کی پیدائش۔۔۔۔ نے بارود کا کام کیا۔
"ہم ملیر میں ۳۵ سال سے ہیں لیکن ایسے حالات نہیں دیکھے۔ یہ MQM کی دھڑےبندی تھی جو ہم سب کی بربادی کا باعث بنی۔ لالوکھیت، کورنگی اور دوسرے علاقوں سے MQM کے لڑکے چھپنے کے لیے یہاں اٹھ آئے۔ چھپنے چھپانے والوں نے ہمارے علاقے کا ستیاناس کیا۔ اب یہ لڑکے بندوقیں لٹکائیں گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ڈاکے ڈالتے ہیں، بھتہ لیتے ہیں۔"
"سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی کوئی عزت نہیں رہی۔ ہماری گلی میں ایک بوڑھا، سفید کچھڑی بال، سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اسے ان لڑکوں سے التجا کرنی پڑتی ہے۔ ہاتھ باندھ کے وہ ان اٹھارہ اٹھارہ برس کے لڑکوں سے کہتا ہے، ُسر جی، پھیری لگا لوںُ۔ ایک ہفتہ ہوا، ان لڑکوں نے پنساری کی دکان لوٹ لی۔ گلی کے بچوں میں لوٹی ہوئی ٹوفیاں اور دو دو روپے تقسیم کیے اور کہا، ُبولو، حقیقی زندہ بادُ۔ ہمارے دودھ والے نے میرے میاں کو بتایا کہ لڑکے اس سے دس ہزار مانگ رہے ہیں کہ اسلحہ خریدنا ہے۔ غریب دودھ والا دس ہزار کہاں سے لاتا۔ بیچارہ، یہ علاقہ چھوڑ گیا۔ خدا جانے اب کہاں دودھ بیچاتا ہوگا۔
"تو یہ حال ہے ہمارے علاقے کا۔ یہ غنڈے بدمعاش جن کے منہ سے ابھی دودھ کی بو آتی ہے، نہ صرف یہ کہ بھتہ مانگتے ہیں بلکہ تمہارے منہ پر کہتے ہیں کہ اسلحہ ختم ہو گیا ہے، بندوقیں لانی ہے، گولیاں خریدنی ہیں،" سکینہ، عمر پچپن کے لگ بھگ، مادری زبان پنجابی، سانس لیے بغیر بول رہی ہیں۔ تین سال کے عرصے میں سکینہ نے اس علاقہ کا جو اخلاقی اور معاشرتی زوال دیکھا ہے، اس نے ان کا سر چکرا دیا ہے۔
میں ان کے گھر میں اپنی خالہ کے ساتھ ان کے بیٹے کا حال پوچھنے آئی ہوں جو گلی میں چلنی والی گولیوں سے شدید زخمی ہوا تھا۔ میری خالہ گورنمنٹ کے ایک ادارے سے وابستہ ہیں اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اس علاقے میں رہتی ہیں۔
"اس دن بہت فائرنگ ہو رہی تھی۔ احمد نے ہم سب کو اندرونی کمرے میں جانے کو کہا اور برآمدے میں آیا کہ گیٹ بند کر لے۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے گیٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانک لیا۔ ایک گولی اس کی دائیں آنکھ کے اوپر لگی اور وہ وہیں گر پڑا۔ باہر لڑکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، ُاحمد بھائی کے گولی لگ گئی، فائرنگ بند کرو، فائرنگ بند کروُ۔ فائرنگ بند ہوگئی۔ چند لڑکے ہماری مدد کو آئے اور احمد کو جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ دوسرے دن دو تین لڑکے میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ُخالہ معاف کرنا۔ لیکن یہ ہماری گولی نہیں تھی جو احمد بھائی کو لگیُ۔ ذرا دیکھو، ان کی ہمت۔ اور ہماری بےبسی! کیا کرسکتے تھے ہم۔ اگر وہ لڑکا بھی، جس کی بندوق سے چلی ہوئی گولی احمد کو لگی، ہمارے پاس آجاتا تو ہم کیا بگاڑ سکتے تھے اس کا؟ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ کوئی ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اور اٹھائے بھی کیسے؟ کوئی دو لفظ بول دے تو جان سلامت نہیں،" سکینہ کہ رہی ہیں، ؛ہر حال میں جیئے جانے کی ہوس نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔۔۔" وہ چپ ہوجاتی ہیں۔
"جس دن میرے بھائی کو گولی لگی جی چاہتا تھا پورے اے ون ایریا کو جلا کر خاکستر کر دوں،" احمد کی چھوٹی بہن کی آواز غصے سے کپکپاتی ہے۔ وہ بی۔اے پاس ہے اور ایک دواؤں کی کمپنی میں کام کرتی ہے۔ اس کی دو چھوٹی بہنیں سامنے دری پر بیٹھی مٹر کی پھلیاں چھیل رہی ہیں۔
یہ چھ بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ احمد سب سے بڑا ہے۔ دو بہنیں نوکری کرتی ہیں۔ باپ کبھی فوج میں سپاہی تھے اب معمولی پینشن ملتی ہے۔ احمد ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ پھر اسے فیکٹری سے نکال دیا گیا۔ فیکٹری نقصان میں جا رہی تھی لہذا تیس آدمیوں کی چھٹی ہوئی۔ "ایک دفعہ احمد نے باہر جانے کی کوشش کی۔ آٹھ ہزار مانگ تانگ کر کسی ایجنٹ کو دیئے۔ لیکن یونان والوں نے پکڑ کر واپس بھیج دیا۔" احمد دو سال سے بےروزگار ہے۔
میں خالہ کے ساتھ ملیر کی گلیوں سے گزر رہی ہوں۔ "اس علاقے میں بہت اسلحہ ہے۔ چند ایک خالی گھر ہیں جہاں لڑکوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ گھر اسلحہ ڈپو بنے ہوئے ہیں۔ کبھی ان گھروں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور قطار سے لگی ہوئی بندوقیں، کلاشنکوفیں اور گولیوں کی پیٹیاں ہر آنے جانے والے کو صاف نظر آتی ہیں۔ بندوقیں لٹکائیں یہ لڑکے گولیوں کی پیٹیاں ادھر سے ادھر پہنچاتے رہتے ہیں۔ آج کل البتہ یہ لڑکے روپوش ہیں۔ جب سے دو امریکی مارے گئے ہیں، تب سے زرا سکون ہے۔
"یہاں دو بدنام ترین لڑکے ہیں حقیقی کے۔ ایک کو تو پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ محلے والوں نے سکون کا سانس لیا کہ چلو ایک تو کم ہوا۔ لیکن ایک ہفتے بعد وہ لڑکا واپس گلیوں میں گھوم رہا تھا اور فخریہ انداز میں لوگوں کو بتا رہا تھا، "دو لاکھ روپے دیئے ہیں"۔ ان لڑکوں نے کمسن بچوں کو تنخواہ پر رکھا ہوا ہے جو پولیس یا دوسرے گروپ کے لڑکوں کے آنے کی اطلاع انھیں وقت پر پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ بچے بڑے ہوکر کیا کرسکیں گے؟ ہمارے محلے میں الطاف گروپ سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن حقیقی والے ان سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں"۔
ہم ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں جس کا سربراہ، ایک ادھیڑ عمر کا آدمی، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کا باپ، دو ماہ پہلے فائرنگ میں ہلاک ہوا ہے۔ بیوہ کسی کام سے باہر گئی ہوئی ھیں۔ میں لڑکیوں سے بات چیت کر رہی ہوں۔ سب سے بڑی لڑکی ۲۰ سال کی ہے۔ "اس دن ابا سہ پہر میں گلی کی نکڑ پر مکینک کی دکان سے اپنی اسکوٹر ٹھیک کروا رہے تھے کہ کچھ مسلحہ افراد گاڑی میں آئے اور گولیاں برسا کر چلے گئے۔ مکنیک تو اسی وقت ختم ہو گیا۔ ابا زخمی حالت میں سڑک پر پڑے رہے۔ کوئی اٹھانے نہیں آیا۔ اتفاق سے میرے بھائی نے اس دن فیکٹری سے چھٹی کی تھی۔ جب گولیاں چلنی بند ہوئی تو وہ باہر نکلا۔ دیکھا ابا سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ بہت خون بہہ گیا تھا۔ اسپتال جاتے وقت راستے میں ختم ہو گئے۔
"میرے ابا اور بھائیوں کا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رہا لیکن ابا کی موت کے بعد MQM اور حقیقی دونوں تنظیموں نے دعوہ کیا کہ ابا ان کے پارٹی کے ہمدرد تھے۔ یہ جھوٹ تھا۔ بعد میں جب اخبار سے لوگ آئے تو بھائی نے کسی سے بات نہ کی۔ کیا فائدہ ان سب باتوں کا۔ الٹا نقصان ہی پہنچ سکتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا میں دستاویزی فلم بنا رہا ہوں۔ دنیا بھر میں دکھانے کے لیے کہ کتنا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن میرے بھائیوں نے منع کر دیا"۔
ہم چار پائی پر بیٹھے ہیں اور بچے ہمارے گرد گھیرا ڈالے کھڑے خاموشی سے ہماری باتیں سن رہے ہیں۔
"ابا موٹر سائیکل میں دکانوں کو مال سپلائی کیا کرتے تھے،" وہ مجھے ب تا رہی ہے۔ اب گیارہ افراد پر مشتمل اس خاندان میں دو کمانے والے ہیں۔
"جب بھی فائرنگ ہوتی تھی ابا کہتے دروازہ بند کر لو، باہر نہ نکلو۔ بہت ڈرتے تھے۔ ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔ دو دن پہلے ہی کہا تھا کہ کھڑکیوں، دروازوں میں لوہے کی جالی لگوا لیں گے۔ بہت وارداتیں ہو رہی ہیں۔ کسی کو کیا معلوم تھا خود ہی واردات کا شکار ہو جائیں گے"۔
کیا حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ وغیرہ ملا؟
"ہمیں صرف FIR کی کاپی ملی جو پولیس نے خود درج کی تھی۔ اور ابا کی موت کا سرٹیفکٹ، جو اسپتال والوں نے دیا۔"
"لیاقت آباد میں بہت برا حال ہے۔ جہاں میں رہتی ہوں۔ لیکن یہاں کے حالات تو بہت ہی خراب ہیں،" ایک بوڑھی خاتون جو گھر میں مہمان آئی ھیں بتانے لگیں۔ "دو مہینے پہلے میں یہاں آئی تھی۔ بس سے اتر کر گلی میں داخل ہوئی۔ میری نظریں اتنی کمزور ہیں کہ میں صرف زمین کی جانب نظریں جمائے رکھتی ہوں کہ کسی پتھر سے ٹھوکر نہ کھاؤں۔ ادھر ادھر تو دیکھتی نہیں ۔۔" انھوں نے موٹے موٹے شیشوں والا چشمہ درست کیا، اور بولیں، "میں جب گلی میں داخل ہوئی اور نظر اٹھائی تو دیکھا تین لڑکے یہ لمبی لمبی بندوقیں کندھوں پر لٹکائے کھڑے ہیں۔ میں وہیں بت بن گئی۔ مجھ سے اگلا قدم اٹھائے نہ اٹھے۔ خوف تھا کہ ہلی اور ان لڑکوں نے گولی چلائی۔ ایک لڑکے نے میرے سفید گال اور جھکی ہوئی کمر کو دیکھتے ہوئے کہا ُاماں ڈر گئیں؟ُ میں بولی ُبیٹا، ڈروں کیسے نہیں؟ بندوق جو اٹھائے ہوئے ہوُ۔ بولا ُاماں، تم تو خود مری ہوئی ہو۔ تمہیں کیا ماریں!ُ
ہم تنگ گلیوں سے گزر کر خالہ کے گھر واپس لوٹتے ہیں۔ "یہاں منشیات کا مسئلہ بھی ہے،" خالہ کہتی ہیں۔ ایک مکان کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سرخ آنکھیں، گالوں کی ہڈیاں نکلی ہوئی، خالی الزہن، خلا میں گھورتا ہوا۔
"کچھ لوگ کھلم کھلا بیچتے ہیں ہیروئن۔ ایک پکڑا بھی گیا تھا۔ لیکن چھوٹ کے آگیا۔ اس کا بھائی وکیل ہے۔"
میری خالہ کو حالات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ ان کے بچے چھوٹے ہیں اور اسکول کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بڑی بیٹی کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ دو لڑکوں نے تکنیکی ڈپلومے لیے ہیں اور اب ٹیکسٹائل ڈیزائن کا کام شروع کیا ہے۔ خالہ کی زندگی جدوجہد کی داستان ہے۔ خالو کی مسلسل بیماری کی وجہ سے گھر بار کا پورا بوجھ ہمیشہ خالہ پر ہی رہا۔
"اور اب میں سوچنے لگی تھی کہ چلو بچوں کی تعلیم ختم ہونے کو آ رہی ہے اور وہ برسر روز گار ہونے لگے ہیں۔ سکون سے بقیہ دن گزر سکیں گے۔ لیکن اب یہ گھر ہے، اور ہم،" خالہ ہرے بھرے گملوں پر نظر ڈالتی ہیں۔ برآمدے میں سیمنٹ کی چادر ڈلوا کر لوہے کی جالی لگوائی ہے۔ سفید پینٹ تازہ ہے۔ "اور یہ محلہ۔۔۔ جو تیزی سے تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میں دلدل پہ چل رہی ہوں۔ بس ایک تسلی ہے، اگر اسی تسلی کہہ لو،کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ ہم سب ہی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ لیکن شاید آگے دلدل ختم ہو جائے اور زمین مضبوط، کون جانے۔۔۔"، خالہ کے چہرے پہ ایک موہوم سی مسکراہٹ ہے۔
**
زینت حسام
Comments
amazing
thank u for u to inform us about this way of life
i m thinking that how people spend whole life in that type of area
kani
i like it
poing
i like it
Mashallah
Zeenat aapa aap ne rula diya, bohat hi achha, bohat hi achha likha hai, Allah Ta'ala hamare watan par apni rahmatein naazil farmaye.
Zeenat aapa, aap ne jo khala aur ghar waghaira ka zikar kiya hai, woh such hai naaa
ice watch soldes
Et il vous informera sans délai sur les toutes dernières informations sur ice watch pas cher à bandoulière de transport par les clients ne reçoivent jamais un coupon.Néanmoins bien souvent, avoir une expérience de Venise à Milan Pondération de haute performance et une pente. Il peut être types de s'assurer juste après avoir essayé ces types de montreà faible coût après montre ice, le client réel ne peut jamais trouver presque n'importe quel genre tout autre société.L'objectif principal sur les sociétés est généralement de vous fournir avec le ice watch pas cher fermés dans le regard et l'expérience, et le tout à un prix beaucoup plus réaliste. Nous avons parfois très souvent aurons nos instruments d'écriture de nouvelles dans notre montre pour les dames sans savoir qu'ils ne sont pas garantis.Et pourquoi voudriez-vous avoir tout cela avec un ice watch soldes concepteur adorable tarifs moins chers? Il est au moins mieux que d'être repéré en utilisant un montre ice watch pas cher et être humilié. Depuis Prime n'est pas n'importe quel autre robot, des événements spéciaux du ice watch soldes , Il y a des spectacles disponibles pour satisfaire tous les âges et goûts.Comment choisir un montre ice watch montre ice watch l de haute qualité sans aller arrivées New: Tuniques et Tops Disparate pour économiser sur les coûts d'énergie. Peu importe si vous souhaitez avoir votre individuelle ou montre discount peut-être un montre ice , connectez-vous sur la page web avec. Le montre ice watch est absolument fabuleux! Pour ceux qui sont inventifs ice watch soldes vente privésensation et aventureux, vous êtes capable de même obtenir un perlés divertissant personnalisé créé dans votre cas. Pour être hobackup, je suis itbuttong pour certains dukeaccoutrements too. Vous pourriez croire que c'est vraiment un ice watch soldes Vous devriez avoir le choix de consulter les membres du ice watch pas cher Ces Ice watch pas cher sont si grands et brillants de bonne qualité,montre ice watch femme je les recommanderais et les obtenir auprès du site Internet bon! Pour cette raison, vraiment causer que des gallons, pour être prêt à ressentir la fierté d'obtenir un ice watch pas cher ou tout simplement un montre
http://www.eshopicewatch.com/
I believe that essay writing
I believe that essay writing services will be helpful for this blog