11 Jan 2008

بابو گوپی ناتھ از سعادت حسن منٹو

Submitted by rajasaab

بابوگوپي ناتھ سے ميري ملاقات سن چاليس ميں ہوئي، ان دنوں ميں بمبئي کا ايک ہفتہ وار چرچہ ايڈٹ کيا کرتا تھا، دفتر ميں عبدالرحيم سينڈو ايک ناٹے آدمي کے ساتھ داخل ہوا ميں اس وقت ليڈ لکھ رہا تھا، سينڈو نے اپنے مخصوص انداز ميں باآواز بلند مجھے آداب کيا اور اپنے ساتھي سے متعارف کرايا، منٹو صاحب بابو گوپي ناتھ سے ملئے۔
ميں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملايا، سينڈو نے حسب عادت ميري تعريفوں کے پل باندھنے شروع کردئيے، بابو گوپي ناتھ، تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو، لکھتا ہےتو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا، ايسي ايسي کنٹي نيو ٹلي ملاتا ہے کہ طبعيت صاف ہوجاتي ہے، پچھلے دنوں کياچٹکلہ لکھا تھا، آپ نے منٹو صاحب، مس خورشيد نے کار خريدي، اللہ بڑا کار ساز ہے، کيوں بابو گوپي ناتھ ہے نہ اينٹي پينٹي پو؟
عبدلرحيم سينڈو کے باتيں کرنے کا انداز بالکل نرالا تھا، کنٹي نيو ٹلي، دھڑن تختہ اور اينٹی پينٹي پو ايسے الفاظ اس کي اپني اختراع تھے، جن کو وہ گفتگو ميں بے تلکف استعمال کرتا تھا، ميرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپي ناتھ کي طرف متوجہ ہوا، جو بہت مرعوب نظر آتا تھا، آپ ہيں بابو گوپي ناتھ، بڑے خانہ خراب لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئے تشريف لائے ہيں ساتھ کشمير کي ايک کبوتري ہے، بابو گوپي ناتھ مسکرايا۔

جاری ہے ۔۔۔

عبدلرحيم سينڈو نے تعارف کو ناکافي سمجھ کر کہا کہ نمبرون بے وقوف ہوسکتا ہے تو وہ آپ ہيں، لوگ ان کے مسکا لگا کر روپيہ بٹورتے ہيں، ميں صرف باتيں کرکے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پيکٹ وصول کرتا ہوں، بس منٹو صاحب، يہ سمجھ ليجئيے کہ بڑے انٹی فلو جيسٹس قسم کے آدمي ہيں، آپ آج شام کو انکے فليٹ پر ضرور تشريف لائيے۔
بابو گوپي ناتھ خدا معلوم کيا سوچ رہا تھا چونک کر کہا ہاں ہاں ضرور تشريف لائيے منٹو صاحب، پھر سينڈو سے پوچھا کيوں سينڈو کيا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہيں۔
تو عبدالرحيم نے زور سے قہقہ لگايا، اجي ہر قسم کا شغل کرتے ہيں، تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئيے گا، ميں نے بھي پيني شروع کر دي ہے، اس لئے کہ مفت ملتي ہے۔
سينڈو نے مجھے فليٹ کا پتہ لکھ کر ديا، جہاں ميں حسب وعدہ شام کو چھ کے قريب پہنچ گيا، تين کمرے کا صاف ستھرا فليٹ تھا، جس میں بالکل نيا فرنيچر سجا ہوا تھا، سينڈو اور بابو گوپي ناتھ کے علاوہ بيٹھنے والے کمرے ميں دو مرد اور عورتيں موجود تھيں، جن سے سينڈو نے مجھے متعارف کرايا۔
ايک تھا غفار سائيں، تہمد پوش، پنجاب کا ٹھيٹ سائيں، گلے ميں موٹے موٹے دانوں کي مالا، سينڈو نے اس کے بارے ميں کہا کہ، آپ بابو گوپي ناتھ کے ليگل ايڈوائزر ہيں، ميرا مطلب سمجھ جائيے آپ، ہر آدمي جس کي ناک بہتي ہو جس کے منہ سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب ميں خدا کو پہنچا ہوا درويش بن جاتا ہے، يہ بھي بس پہنچے ہوئے ہيں يا پہنچنے والے ہيں، لاہور سے بابو گوپي ناتھ کے ساتھ آئے ہيں، کيونکہ انہيں وہاں کوئي اور وقوف ملنے کي اميد نہيں تھي، يہاں آپ بابو گوپي ناتھ سے کيون اے کے سگريٹ اور سکاچ وسکي کے پيگ پي کر دعا کرتے رہتے ہيں،کہ انجام نيک ہو۔
دوسرے مرد کا نام تھا غلام علي، لمبا تڑنگا جوان،کسرتي بدن،منہ پر چيچک کے داغ، اس کے متعلق سينڈو نے کہا يہ ميرا شاگرد ہے، اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا ہے، لاہور کي ايک نامي طوائف کي کنواري بيٹي اس پر عاشق ہوگئي، بڑي کنٹي ٹلياں ملائي گئيں اس کو پھانسنے کيلئے مگر اس نے کہا، ڈو اور ڈائي، ميں لنگوٹ کا پکا رہوں گا، ايک تکئيے ميں بات چيت پيٹے ہوئے بابو گوپي ناتھ سے ملاقات ہوگئي، بس اس دن سے ان کے ساتھ چمتا ہوا ہے،ہر روز کريون اے کا ڈبہ اور کھانا پينا مقرر ہے۔

جاری ہے ۔۔۔

گول چہرے والي ايک سرخ و سفيد عورت تھي، کمرے ميں داخل ہوتے ہي ميں سمجھ گيا تھا،کہ يہ وہي کشمري کبوتري ہے، جس کے متعلق سينڈو نے دفتر ميں ذکر کيا تھا ، بہت صاف ستھري عورت تھي، بال چھوٹے تھے،ايسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہيں،مگر ايسا نہيں تھا، آنکھيں شفاف اور چمکيلي تھيں، چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے، سينڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا زينت بيگم بابو گوپي ناتھ پيار سے زينو کہتے ہيں، ايک بڑي خرانٹ نائکہ کشمير سے يہ سيب توڑ کر لاہور لے آئي بابو گوپي ناتھ کو اپني سي آئي ڈي سے پتہ چلا کہ اور ايک رات لے اڑے، مقدمے بازي ہوئي تقريبا دو مہنيے تک پوليس عيش کرتي رہي، آخر بابو گوپي ناتھ نے مقدمہ جيت ليا اور اسے يہاں لے آئے۔۔۔۔۔دھڑن تحتہ۔
اب گہرے سانولے رنگ کي عورت باقي رہ گئي تھي جو خاموش بيٹھي سگريٹ پي رہي تھي، آنکھيں سرخ تھيں جن سے کافي بے حيائي مترشح تھي، بابو گوپي ناتھ نے اس کي طرف اشارہ کيا، اس کے متعلق بھي کچھ ہو جائے۔
سينڈو نے اس عورت کي ران پر ہاتھ دے مارا اور کہا جناب يہ ہے، ٹين پٹوني فل فل فوني، مسز عبدلرحيم سينڈو عرف سردار بيگم۔۔۔۔۔آپ بھي لاہور کي پيداوار ہيں، سن چھتيس ميں مجھ سے عشق ہوا تھا، دو برسوں ہي ميں ميرا دھڑن تختہ کرکے رکھ ديا، ميں لاہور چھوڑ کر بھاگا، بابو گوپي ناتھ نے اسے يہاں بلواليا ہے، تاکہ ميرا دل لگا رہے، اس کو بھي ايک ڈبہ کريون اے کا راشن ملتا ہے، ہر روز شام کو ڈھائي روپے کا مورفيا کا انجکشن ليتي ہے، رنگ کالا ہے، مگر ويسے بڑي ٹيٹ فور ٹیٹ قسم کي عورت ہے۔
سردار نے ايک ادا سے صرف اتنا کہا، بکواس نہ کر، اس ادا ميں پيشہ ور عورت کي بناوٹ تھي۔

جارہ ہے ۔۔

سب سے متعارف کرانے کے بعد سينڈو نے حسب عادت ميري تعريف کے پل باندھنے شروع کردئيے، ميں نے کہا چھوڑو يار، آؤ کچھ باتيں کريں۔
سينڈو چلايا بوائے وسکي اينڈ سوڈا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابو گوپي ناتھ لگائو ايک سبزے کو۔ نوٹ سينڈو کے حوالے کرديا، سينڈو نوٹ لے کر اس کي طرف غور سے ديکھا اور کھڑا کھڑا کر کہا اور گوڈ۔۔۔او ميرے رب العالمين ۔۔۔۔وہ دن کب آئےگا جب ميں بھئ لب لگا کريوں نوٹ نکالا کروں گا۔۔۔۔جائو بھي غلام علي وہ دو بوتليں جاني واکر سٹل گوتنگ سٹرانگ کي لئے آئو۔
بوتليں آئيں تو سب نے پينا شروع کيں، يہ شغل دو تين گھنٹے تک جاري رہا، اس دوران ميں سے زيادہ باتيں حسب معمول عبدالرحيم نے کيں، پہلا گلاس ايک ہي سانس ميں ختم کرکے وہ چلايا، دھڑن تحتہ منٹو صاحب وسکي ہو تو ايسي حلق سے اتر کر پيٹ ميں انقلاب زندباد لکھتي چلي گئي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابو گوپي ناتھ جيو۔
بابو گوپي ناتھ بے چارہ خاموش رہا، کبھي کبھي البتہ وہ سينڈو کي ہاں ملا ديتا تھا، ميں نے سوچا اس شخص کي اپني کوئي رائے نہيں ہے، دوسرا جو کہے مان ليتا ہے، ضعيف الاعتقادي کا ثبوت غفار سائيں جسے وہ بقول سينڈو اپنا ليگل ايڈوائزر بنا کر لايا تھا، سينڈو کا اس سے دراصل يہ مطلب تھا کہ بابو گوپي ناتھ کو اس سے عقيدت تھي، يوں بھي مجھے دوران گفتگو ميں معلوم ہوا کہ لاہور ميں اس کا اکثر وقت فقيروں اور درويشوں کي صبحت ميں گزرتا تھا، يہ چيزيں ميں خاص طور پر نوٹ کي کہ وہ کھويا کھويا سا تھا، جيسے وہ کچھ سوچ رہا ہے، ميں نے چناچہ اس سے ايک بار کہا بابو گوپي ناتھ کيا سوچ رہے ہو آپ۔
وہ چونک پڑا۔جي ميں۔۔۔۔۔ميں ۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہيں، يہ کہہ کر وہ مسکرايا اور زينت کي طرف ايک عاشقانہ نگاہ ڈالي، ان حسينوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔اور ہميں کيا سوچ ہوگي۔
سينڈو نہ کہا بڑے خانہ خراب ہيں يہ منٹو صاحب ، بڑے خانہ خراب ہيں۔۔۔۔۔۔۔لاہور کي کوئي طوائف نہيں جس کے ساتھ بابو گوپي ناتھ کي کنٹي نيو ٹلي نہ رہ چکي ہو، بابو گوپي ناتھ نے يہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا اب کمرے ميں وہ دم ہے نہيں منٹو صاحب۔

جاری ہے ۔۔۔

اس کے بعد واہيات گفتگو شروع ہوئي، لاہور کي طفوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے، کون ڈيرہ دار تھي؟ کون نئي تھي، کون کس کي نوچي تھي؟ نتہني اتارنے کا گوپئ ناتھ جي نے کيا ديا تھا، وغيرہ وغيرہ، يہ گفتگو سردار،سينڈو، غفار سائيں اور غلام علي کے درميان ہوتي رہي، ٹھيٹ لاھور کے کوٹھوں کي زبان ميں ، مطلب تو ميں سمجھتا رہا بعض اصطلاحیں سمجھ ميں نہ آئے۔
زينت بالکل خاموش بيٹھي رہي، کبھي کبھي کسي بات پر مسکرا ديتي، مگر مجھے ايسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سےکوئي دلچسپي کے سگريٹ بھي پيتي تھي، تو معلوم ہوتا تھا، اس تمباکو اور اس کے دھوئيں سے کوئي رغبت نہيں ليکن لطف يہ ہے کہ سب سے زيادہ سگريٹ اسي نے پي، بابو گوپي ناتھ سے اسے محبت تھي، اس کا پتہ مجھے کسي بات سے پتہ نہ چلا، اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپي ناتھ کو اسکا کافي خيال تھا، کيونکہ زينت کي آسائش کيلئے ہر سامان مہيا تھا، ليکن ايک بات مجھے محسوس ہوئي کہ ان دونوں ميں کچھ عجيب سا کھنچائو تھا، ميرا مطلب ہے وہ دونوں ايک دوسرے کے قريب ہونے کے بجائے کچھ ھٹے سے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔
آٹھ بجے کے قريب سردار، ڈاکٹر مجيد کے ہاں چلي گئ کيونکہ اسے مورفيا کا انجکشن لينا تھا، غفار سائيں تين پيگ پينے کے بعد اپني تسبيح اٹھا کر قالين پر سوگيا، غلام علي کو ہوٹل سے کھانا لينے کيلئے بھيج ديا گيا تھا، سينڈو نے اپني دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کي تو بابو گوپي ناتھ نے جو اب نشے ميں تھا، زينت کي طرف وہ ہي عاشقانہ نگاہ ڈالي اور کہا، منٹو صاحب ميري زينت کے متعلق آپ کا کيا خيال ہے۔
ميں نے سوچا کيو کہوں، زينت کي طرف ديکھا تو وہ جھينپ گئي، ميں نے اسے ہي کہہ ديا، بڑا نيک خيال ہے۔
بابو گوپي ناتھ خوش ہو گيا، منٹو صاحب ہے بھي بڑي نيک لوگ، خدا کي قسم نہ زيور کا شوق ہے نہ کسي چيز کا، ميں نے کئي بار کہا، جان من مکان بنودوں؟ جواب کيا ديا، معلوم ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔؟ کيا کروں گي مکان لے کر، ميرا کون ہے۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب موٹر کتنے ميں آجائےگي۔

جاری ہے ۔۔۔

ميں کہا مجھے معلوم نہيں۔
بابو گوپي ناتھ نے تعجب سے کہا کيا بات کرتے ہو منٹو صاحب۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اور کاروں کي قيمت معلوم نہ ہو، کل چلئيے گا ميرے ساتھ، زينو کيلئے ايک موٹر ليں گے، ميں نے اب ديکھا ہے کہ بمبئے ميں موٹر ہوني چاہئيے۔
زينت کا چہرہ رد عمل سے خالي تھا۔
بابو گوپي ناتھ کا نشہ تہوڑي دير کے بعد بہت تيز ہوگيا، ہمہ تن جذبات ہو کر اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمي ہيں، ميں تو بالکل گدھا ہوں، ليکن آپ مجھے بتائيے، ميں آپ کي کيا خدمت کرسکتا ہوں، کل باتوں باتوں ميں سينڈو نے آپ کا ذکر کيا ، ميں نے اسي وقت ٹیکسي منگوائي اور اس سے کہا مجھے لے چل منٹو صاحب کے پاس، مجھ سے کوئي گستاخي ہو تو معاف کر ديجئے گا۔۔۔۔۔بہت گناہ گار آدمي ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وسکي منگائوں کيا آپ کے لئے اور۔
ميں نے کہا نہيں نہيں۔۔۔۔۔۔بہت پي چکے ہيں۔
وہ اور زيادہ جذباتي ہو گيا، اور پيجئيے منٹو صاحب يہ کہہ کر جيب سے سوسو کے نوٹوں کا پلندہ نکالا اور ايک نوٹ جدا کرنے لگا ليکن ميں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کي جيب ميں ٹھونس دئيے، سو روپے کا ايک نوٹ آپ نے غلام علي کو ديا اس کا کيا ہوا؟
مجھے دراصل کچھ ہمدردي سي ہوگئي تھي،بابو گوپي ناتھ سے، کتنے آدمي اس غريب کے ساتھ جونک کي طرح چمٹۓ ہوئے تھے،ميرا خيال تھا بابو گوپي ناتھ بالکل گدھا ہے، ليکن وہ ميرا اشارہ سمجھ گيا اور مسکرا کر کہنے لگا، منٹو صاحب اس نوٹ ميں سے جو کچھ باقي بچا ہے وھ يا تو غلام علي کي جيب سے گر پڑے يا۔۔۔۔
بابو گوپي ناتھ نے پورا جملہ بھي ادا نہیں کيا تھا کہ غلام علي نے کمرے ميں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ يہ اطلاع دي کہ کسي خرامزادے نے اس کي جيب ميں سے ساري روپے نکال لئيے، بابو گوپي ناتھ ميري طرف ديکھ کر مسکرايا، پھر سو روپے کا ايک نوٹ جيب سے نکالا اور غلام علي کو دے کر کہا جلدي کھانا ۔۔۔۔لے آئو۔

جاری ہے ۔۔۔

پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پوري طرح خير انسان کسي کو بھي نہيں جان سکتا، ليکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔
پہلے تو ميں يہ کہنا چاہتا ہوں کہ ميرا يہ خيال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے غلط ثابت ہوا، اس کو اس کا پوا حساس تھا کہ سينڈو، غلام علي اور سردار وغيرہ جو اس کے مصاحب بنے ہوئے تھے مطلبي انسان ہيں، وہ ان جھڑکياں گالياں سب سنتا تھا ليکن غصے کا اظہار نہیں کيا،اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب ميں نے آج تک کسي کا مشورہ رد نہيں کيا، جب بھي مجھےکوئي رائے ديتا ہے، ميں کہتا ہوں، سبحان اللہ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہيں ليکن ميں انہيں عقلمند سمجھتا ہوں، اس لئے کہ ان ميں کم از کم اتني عقل تو تھي کہ جو مجھ سےايسي بے وقوفي کو شناخت کرليا، جن سے ان کا الو سيدھا ہوسکتا ہے بات دراصل يہ ہے کہ ميں شروع سے فقيروں اور کنجروں کي صبحت ميں رہا ہوں، مجھے ان سے کچھ محبت سي ہوگئي ہے، ميں ان کے بغير نہيں رہا سکتا ، ميں نے سوچ رکھا ہے جب ميري دولت بالکل ختم ہوجائے گي، تو کسي تکئيے ميں جا بيٹھوں گا، رنڈي کا کوٹھا اور پير کا مزار، بس يہ دو جگہيں ہيں جہاں ميرے دل کوسکون ملتا ہے، رنڈي کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا، اس لئے جيب خالي ہونے والي ہے ليکن ہندوستان ميں ہزاروں پير ہيں، کسي ايک کے مزار پر چلا جائوں گا۔
ميں نے اس سے پوچھا، رنڈي کےکوٹھے اور تکئے آپ کو کيوں پسند ہيں، کچھ دير بعد سوچ کر اس نے جواب ديا اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہي دھوکا ہوتا ہے جو آدمي خود کو دھوکہ دينے چاہے، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کيا ہوسکتا ہے۔
ميں نے ايک اور سوال کيا آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے کيا آپ موسيقي کي سمجھ رکھتے ہيں۔
اس نے جواب ديا بالکل نہيں اور يہ اچھا ہے کيونکہ ميں کن سري سے کن سري طوائف کے ہاں جا کربھي اپنا سر ہلا سکتا ہوں۔۔۔۔۔منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئي دلچسپي نہيں ليکن جيب ميں سے دس يا سو کا نوٹ نکال کر گانے والي کو دکھانے ميں بہت مزا آتا ہے، نوٹ نکالا اور اس کو دکھايا، وہ اسے لينے کيلئے ايک ادا سے اٹھي، پاس آئي تو نوٹ جراب ميں اڑس ليا، اس نے جھک کر اسےباہر نکالا تو ہم خوش ہوگئے، ايسي بہت فضول فضول سي باتيں ہيں جو ہم ايسے تماش بينوں کو پسند ہيں ورنہ کون نہيں جانتا کہ رنڈي کے کوٹھے پر ماں باپ اپني اولاد سے پيشہ کرواتے ہيں اور مقبروں اور تکيوں ميں انسان اپنے خدا سے۔
بابو گوپي ناتھ کا شجرہ نسب تو ميں نہيں جانتا ليکن اتنا معلوم ہوا کہ کہ وہ ايک بہت بڑے کنجوس بنيے کا بيٹا ہے باپ کے مرنے کے بعد اسے دس لاکھ کي جائداد ملي جو اس نے اپني خواہش کے مطابق اڑانا شروع کردي، بمبئے آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار ساتھ لايا تھا، اس زمانے ميں سب چيزيں سستي تھيں، ليکن پھر بھي ہر روز تقريبا سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے تھے۔
زينوں کيلئے اس نے فيسٹ موٹر خريدي، ياد نہیں رہا، ليکن شايد تين ہزار روپے ميں آئي تھي،ايک ڈرائيور رکھا ليکن وہ بھي لفنگے ٹائپ کا، بابو گوپي ناتھ کو کچھ ايسے ہي آدمي پسند تھے۔
ہماري ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گيا، بابو گوپي ناتھ سے مجھےصرف دلچسپي تھي ليکن اسے مجھ سے کچھ يوں عقيدت ہوگئي تھي، يہي وجہ ہے کہ وہ دوسروں کي بہ نسبت ميرا بہت زيادہ احترام کرتا تھا۔
ايک روز شام کے قريب جب ميں فليٹ پر گيا تو مجھے وہاں شفيق کو ديکھ کر سخت حيراني ہوئي، محمد شفيق طوسي کہوں تو شايد آپ سمجھ ليں کہ ميري مراد کس آدمي سے ہے، يوں تو شفيق کافي مشہور آدمي تھے، کچھ اپني جدت طراز گائيکي کے باعث اور کچھ اپني بذلہ سبخ طبعيت کي بدولت، ليکن اس کي زندگي کا ايک حصہ اکثريت سے پوشيدہ ہے، بہت کم آدمي جانتے ہيں کہ تين سگي بہنوں کو يکے بعد ديگرے تين تين چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اسکا تعلق ان کي ماں سے بھي تھا، يہ بھي تھا، يہ بھي بہت کم مشہور ہے کہ اسکو اپني پہلي بيوي اس لئے پسند نہ تھي کہ اس ميں طوائفوں والے غمزے اور عشوے نہیں تھے،ليکن يہ تو خير ہر آدمي جو شفيق طوسي سے تھوڑي بہت واقفيت بھي رکھتا ہے جانتا ہے کہ چاليس برس يہ اس زمانے کي عمر ہے کي عمر ميں سيکنٹروں طوائفوں نے اسے رکھا، اچھے سے اچھا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھايا۔

Comments

اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کیجیے