From Urdu News
Submitted by tanveeralamqasmiعالمی ادارے اور سیاسی پارٹیاں زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھیں
ہفتہ 8/صفر المظفر 1429ھ 16/فروری 2008ء صدر پرویز مشرف نے جمعرات کو وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں اتحاد برائے انتخاب کے موضوع پر منعقد کردہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف تو غیرملکی تنظیموں کی جانب سے عجلت میں جاری کئے جانے والے انتخابی جائزوں کو زمینی حقائق کے منافی قرار دیا اور ان پر زور دیا کہ وہ اس طرز عمل سے گریز کریں کیونکہ اگر انہوں نے رائے عامہ کو منفی انداز میں متاثر کرنے کا یہ چلن جاری رکھا تو خدشہ ہے کہ اس سے صرف اس علاقے میں ہی امن و امان کی صورتحال دگرگوں نہیں ہو گی بلکہ پوری دنیا کی سلامتی بھی خطرات کی زد میں آ سکتی ہے
دوسری طرف انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھی انتخابات میں اپنی کامیابی کے بارے میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ انتخابی نتائج برعکس آنے کی صورت میں انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے درست لائحہ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ انتخابی نتائج کو خود بولنے کا موقع دیا جائے اور جو کوئی بھی واضح کامیابی سے ہمکنار ہو وہ حکومت بنا لے لیکن اگر کسی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو پھر مخلوط حکومت بن سکتی ہے ۔ صدر مملکت نے 18 فروری کو ہونے والے انتخابات کے ہر اعتبار سے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے کے بارے میں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن ہر قسم کی دھاندلی سے پاک ہوں گے اور پوری دنیا ان کی شفافیت کو دیکھ رہی ہو گی۔ اسی تناظر میں انہوں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ چونکہ ملک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنج سے نبرد آزما ہے اس لئے انتخابات کے دوران یا ان کے بعد کسی کو احتجاجی سیاست کرنے اور امن عامہ کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انتخابات سے صرف چار دن پیشتر صدر مشرف کی جانب سے دیئے جانے والے اس بیان کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے چار بنیادی و مرکزی نکات سامنے آتے ہیں۔ (1) انتخابی سروے جاری کرنے والے عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو یہ مشورہ کہ وہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں محض قیاس اور اندازوں پر مبنی جائزہ رپورٹیں پیش کرنے سے گریز کریں اور انتخابات پر منفی اثرات ڈالنے والے کسی بھی عمل سے گریز کریں۔ (2)سیاسی پارٹیاں بھی انتخابات میں اپنی کامیابی کے بارے میں مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ اگر انتخابی نتائج ان توقعات سے الٹ آئے تو اس سے ان سے وابستہ افراد میں خواہ مخواہ کی مایوسی پیدا ہو سکتی ہے جسے ملک دشمن اور انتہا پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کر سکتے ہیں۔ (3) انتخابی عمل کو ہر لحاظ سے آزادانہ، منصفانہ اور دھاندلی سے پاک بنایا جائے گا اور اس میں کسی بھی طرف سے کسی قسم کی گڑبڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (4) انتخابات میں جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی جائے گی۔ اور اگر کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر پوری دنیا میں مروج اور مسلمہ طریق کار کے مطابق مخلوط حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جہاں تک عالمی اداروں اور غیرملکی فنڈز سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے جاری کی جانے والی سروے رپورٹوں کا تعلق ہے تو ان کے زمینی حقائق سے کوئی زیادہ مناسبت نہ رکھنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ انتخابی جائزے جس طریقے سے مرتب کئے جاتے ہیں وہ ان ترقی یافتہ ممالک میں تو سودمند ہو سکتے ہے جہاں عوام کی بھاری اکثریت سیاسی شعور سے اتنی زیادہ بہرہ ورہوتی ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے ہی پارٹی منشوروں کی بنا پر اپنی ایک ٹھوس رائے قائم کر لیتی ہے اور اسے کسی بھی حالت میں تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی لیکن تیسری دنیا کے پاکستان ایسے ممالک میں جہاں سیاسی پارٹیوں کے ممتاز ترین افراد بھی عین آخری لمحات تک میں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے وہاں جاگیردارانہ اور مختلف قسم کی عصبیتوں میں گرفتار عوام کی ایک محدود تر تعداد کی رائے لے کر یہ گمان کر لینا کہ وہ تمام رائے دہندگان کے انداز فکر کی عکاسی کرتی ہے کسی طرح درست نہیں سمجھا جا سکتا اور اس پس منظر میں صدر مشرف کا یہ کہنا اپنے اندر کافی حد تک صداقت لئے ہوئے ہے کہ 3000 افراد کی رائے کو کسی طرح 16 کروڑ عوام کی آواز نہیں سمجھا جا سکتا۔ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں اپنی کامیابی کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے سے اعراض کرنے کا انہوں نے جو مشورہ دیا ہے وہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں موجود اکثر سیاسی و مذہبی پارٹیاں اپنے حامیوں کی تعداد کے متعلق عمومی طور پر بہت زیادہ خوش گمانی کا شکار ہوتی ہیں لیکن ماضی کے انتخابات اس امر کے گواہ ہیں کہ ان کے یہ گمان ہمیشہ حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتے رہے ہیں اس لئے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بے جا دعووں سے گریز کیا جائے تاکہ ان پارٹیوں سے وابستہ افراد انتخابات میں بساط الٹ جانے پر دلبرداشتہ نہ ہوں اور حقائق کا سامنا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ اس بارے میں غیر معمولی حساسیت کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ تین چار سالوں سے بوجوہ وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں امن عامہ کی صورتحال کوئی زیادہ قابل رشک نہیں اور ہمارے بعض روایتی دشمن ہمسایہ ممالک ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے جس قدر بے چین ہیں اس کے بارے میں کسی بھی باشعور آدمی کو کوئی شبہ نہیں اس لئے انہیں اپنے مفادات کی فصلیں کاشت کرنے کا مزید کوئی موقع فراہم نہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی بے چینی و اضطراب میں اضافہ کرنے کی ہر امکانی صورت سے گریز کیا جائے۔ صدر مشرف انتخابی عمل کو دھاندلی کی ہر آلودگی سے بالاتر رکھ کر اسے ہر لحاظ سے منصفانہ اور شفاف بنانے کی جو یقین دہانیاں پورے تسلسل سے کروا رہے ہیں ان کی موجودگی میں اس پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں کیونکہ انتخابات کے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ ہونے کی نگرانی کرنے کے لئے سینکڑوں غیرملکی مبصرین بھی آ چکے ہیں اور پوری دنیا کی نگاہیں بھی ان پر اس طرح جمی ہوئی ہیں کہ ان کا کوئی پہلو ان سے مخفی یا اوجھل رہنے کا کوئی امکان نہیں۔ صدر مملکت نے نہایت واضح الفاظ میں اپنے اس عزم کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ انتخابات میں اگر کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ بلاتامل اقتدار اس کے سپرد کر دیں گے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر امور مملکت چلانے کے لئے مخلوط حکومت تشکیل دی جائے گی۔ گویا کوئی بھی صورت ہو وہ ہر قیمت پر جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے پوری طرح تیار ہیں اور اس راہ میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان حالات میں سیاسی پارٹیوں اور عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور کسی بھی فرد گروہ یا پارٹی کو انتخابی عمل میں کسی قسم کا رخنہ پیدا کرنے یا امن عامہ کی صورتحال کو تلپٹ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ دنیا کے ہر مہذب ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کا سفر آہستہ آہستہ چل کر ہی تکمیل کی منزل تک پہنچا ہے پاکستان کو بھی یہ کٹھن اور مشکل سفر اسی انداز میں طے کرنا ہے کیونکہ اس کا کوئی شارٹ کٹ موجود ہی نہیں اس لئے حکومت سیاسی پارٹیوں اور عوام سب کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔ تجارتی راستوں کی تعمیر و ترقی کا منصوبہ ملکی برآمدات کو 300ارب ڈالر تک بڑھانے کے لئے آئندہ چار برس کے دوران تجارتی راستوں کی تعمیر و ترقی پر 9ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ ا نفراسٹرکچر کمپنی آف پاکستان کے مطابق آئندہ چند سال کے دوران وسطی ایشیائی ممالک، چین، افغانستان کے ساتھ زمینی راستوں سے تجارت کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس کے لئے اہم شاہراہوں، سڑکوں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کی تعمیر جاری رہے گی۔پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے اور پورے جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیائی ریاستوں، خلیجی ریاستوں سمیت ایران، بھارت، چین، افغانستان کے ساتھ زمینی ذرائع سے تجارتی روابط نہ صرف قائم کر سکتا ہے بلکہ انہیں فروغ بھی دے سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ ریشم کی تعمیر اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان ا فغانستان کے ساتھ بھی ریلوے اور شاہراہ کے ذریعے رابطے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے لیکن افغانستان میں امن و امان کی صورتحال اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایران کے ساتھ بھی خشکی کے راستے تجارت جاری ہے پاکستان نے افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت بھی فراہم کر رکھی ہے۔ بھارت کے ساتھ زمینی درآمد و برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت سے 770اشیاء درآمد کی جا رہی ہیں، تجارتی فروغ اور صنعتی و کاروباری اداروں کو ان کی مصنوعات کی برآمد کو یقینی بنانے اور زمینی راستے سے تجارت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے حکومت کو وہی پالیسی اختیار کرنی چاہئے جو کسانوں اور کاشتکاروں کو ان کی زرعی پیداوار کی فروخت کیلئے کھلیان سے منڈی تک کی سہولت کی صورت میں اختیار کی جاتی ہے اس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ اور زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت بھی بڑھے گی جس سے ملک میں خوشحالی کو فروغ ملے گا۔ صنعتی ترقی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے ، بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ شہر اقبال سے پہلی بین الاقوامی پرواز کا آغاز سیالکوٹ سے کویت کے لئے پہلی پرواز آج روانہ کر دی گئی ہے اس طرح پاکستان کے ایک ممتاز اور معروف صنعتی شہر اور کویت کے درمیان براہ راست فضائی رابطہ قائم ہوگیا اور سیالکوٹ سے بین الاقوامی پرواز کا آغاز کر دیا گیاہے۔ اس صنعتی شہر میں ہوائی اڈہ کی تعمیر ضلع کے صنعت کاروں، تاجروں اور کاروباری برادری کے مالی تعاون سے مکمل کی گئی ہے اور تعمیر کے تمام اخراجات انہوں نے خود برداشت کئے ہیں جو ہوائی اڈوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ دوسرے صنعتی مراکز اور شہر بھی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بین الاقوامی پروازوں سے منسلک کر سکتے ہیں۔ سیالکوٹ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی صنعتی اور کاروباری مرکز ہونے کی حیثیت سے ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا ہے یہاں سے تجارتی وفود کا دوسرے ممالک میں آنا جانا بھی رہتا ہے اور دوسرے ممالک کے وفود بھی اس شہر کا دورہ کرتے رہتے ہیں اس شہر کے ہزاروں افراد کویت، سعودی، عرب اور خلیجی ممالک میں کاروبار اور ملازمتوں کے سلسلے میں مقیم ہیں اس طرح اس بین الاقوامی پرواز کے شروع ہونے سے انہیں وطن آنے اور واپس جانے میں بڑی سہولت میسر آئے گی اس سے پی آئی اے کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اس کا سہرا شہر اقبال کے ان تاجروں اورصنعتکاروں کے سر ہے جنہوں نے اس ہوائی اڈے کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کئے ہیں۔ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ اور شہریوں کی مشکلات ہر الیکشن کے موقع پر بسوں اور دوسری گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ ایک تکلیف دہ روایت بن کر رہ گئی ہے بالعموم ان گاڑیوں کو ا نتظامیہ الیکشن کی ڈیوٹی پر مامور عملے کو آمدورفت کیلئے استعمال کرتی ہے لیکن اس صورتحال سے شہریوں کو بڑی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انتظامیہ جو گاڑیاں پکڑتی ہے ان کے مالکان کو اکثر ا وقات معاوضہ بھی بہت کم دیا جاتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی یہ پکڑ دھکڑ شروع ہو چکی ہے اور مالکان نے گاڑیاں سڑکوں سے غائب کرنا شروع کر دی ہیں جس سے شہریوں کو بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس حکام اور دوسرے سرکاری شعبے اس ناپسندیدہ روایت کا اعادہ نہ کریں اور ا لیکشن کی ڈیوٹی پر مامور افسروں اور اہلکاروں کو خود حکومت اور الیکشن کمیشن آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔
Tanveer Alam Qasmi